پلٹ کے دیکھنا چاھو
تو نفرتوں سے ادھر
دنوں کی raakh پے راتوں کی یخ ہتھیلی پہ
ہوا کے ناچتے گرداب کی تہوں میں کہیں
بجھا ہوا کوئی لمحہ
کسی چراغ کے داغ کہ میں بھی زندہ ہوں
کہ میں بھی زندہ ہوں، اپنے اجاڑ دل کی طرح
اجاڑ دل کہ جہاں آج بھی تمھارے بغیر
ہر ایک رات بکھرتی ہے آرزو کی دھنک
ہر ایک صبح دمکتے ہیں زخم زخم گلاب
اجاڑ، دل کے جہاں آج بھی تمھارے بغیر
ہر ایک پل میری آنکھوں میں
دھل کے ڈھلتا ہے
کہ تپتی رت کی تپش سے
بدن پگھلتا ہے
اجاڑ دل کہ جہاں ڈوبتا سورج
جبیں وقت پے لکھتا ہے دوریوں کے پیام
پلٹ کے دیکھنا چاھو
تو نفرتوں سے ادھر
درخسان ہے کب سے بس ایک ہی نام
وہ نام ، جس پے مسلسل ہے اعتماد مجھے
وہ نام
لوح جاں پہ ابھر کے بولتا ہے
نظر پڑے تو سمجھنا
کہ تم ہو یاد مجھے
"موحسن تقوی"
No comments:
Post a Comment