Friday 28 October 2011

زندگی سے ڈرتے ہو؟

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو ، زندگی تو ہم بھی ہیں 
آدمی سے ڈرتے ھو
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں 
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے 
اس سے تم نہیں ڈرتے 
حرف اور معنی کے رشتہ ہاۓ آہن سے 
آدمی ہے وابستہ 
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ 
اس سے تم نہیں ڈرتے 
"ان کہی " سے ڈرتے ہو 
جو ابھی نہیں آئ اس گھڑی سے ڈرتے ہو 
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو 
.......پہلے بھی تو گزرے ہیں 
دور نارسائی کے ، بے ریا خدائی کے 
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ، ہیچ آرزو مندی 
یہ شب زباں بندی ہے رہ خدا وندی 
تم مگر یہ کیا جانو ، 
لب اگر نہیں ہلتے 
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں 
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر 
نور کی زباں بن کر 
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذان بن کر 
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں 
روشنی سے ڈرتے ہو 
...... شہر کی فصیلوں پر 
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر 
رات کا لبادہ بھی 
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر 
ازدہام انساں سے فرد کی نوا آئ
ذات کی سادہ آئ 
راہ شوق میں جیسے راہ رو کا خوں لپکے 
اک نیا جنوں لپکے 
آدمی چھلک اٹھے 
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو 
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟

No comments:

Post a Comment