Thursday 13 October 2011

gehra hai samandar


بے چین ہے بے تاب ہے گہرا ہے سمندر 
یعنی کہ میرے پیار کے جیسا ہے سمندر
کیا دکھ ہے کسی لہر کو چھو کر کبھی دیکھو 
تم نے تو فقط دور سے دیکھا ہے سمندر
کہنے کو بہت خشک اور ویران ہیں آنکھیں 
لیکن جو لگے ٹھیس تو بہتا ہے سمندر
کیا لکھوں میں پانی پے کہانی کے ہمیشہ 
ہر روز نیا رنگ بدلتا ہے سمندر
برسوں سے پریشان سی لہروں کو اٹھاے
پیغام یہ کسکا لئے پھرتا ہے سمندر
گم سم کبھی بے چین کبھی اپنی مگن میں 
لگتا ہے ہمیں آپ کے جیسا سمندر
انسان سے دکھ کہتا ہے لہروں کی زبانی 
فرصت یہاں کس کو کہاں رہتا ہے سمندر
اس کرب کا اندازہ بھلا کون کریگا 
ہر سمت ہے پانی مگر پیاسا ہے سمندر 
اک شہر جسے خود ہی بسایا تھا مگر اب
ارمان بہت دور سے تکتا ہے سمندر 

No comments:

Post a Comment