بے چین ہے بے
تاب ہے گہرا ہے سمندر
یعنی کہ میرے
پیار کے جیسا ہے سمندر
کیا دکھ ہے
کسی لہر کو چھو کر کبھی دیکھو
تم نے تو فقط
دور سے دیکھا ہے سمندر
کہنے کو بہت
خشک اور ویران ہیں آنکھیں
لیکن جو لگے
ٹھیس تو بہتا ہے سمندر
کیا لکھوں
میں پانی پے کہانی کے ہمیشہ
ہر روز نیا
رنگ بدلتا ہے سمندر
برسوں سے
پریشان سی لہروں کو اٹھاے
پیغام یہ
کسکا لئے پھرتا ہے سمندر
گم سم کبھی
بے چین کبھی اپنی مگن میں
لگتا ہے ہمیں
آپ کے جیسا سمندر
انسان سے دکھ
کہتا ہے لہروں کی زبانی
فرصت یہاں کس
کو کہاں رہتا ہے سمندر
اس کرب کا
اندازہ بھلا کون کریگا
ہر سمت ہے
پانی مگر پیاسا ہے سمندر
اک شہر جسے
خود ہی بسایا تھا مگر اب
ارمان بہت
دور سے تکتا ہے سمندر
No comments:
Post a Comment