Friday, 14 October 2011

kuch Shayeri ho jayee


مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہ کر سپیروں نے 
یہ انسانوں کو انسانون سے ڈسوانے کا موسم ہے 
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے پاسس رہنے دو 
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
ہے بس کہ ہر اک انکے اشارے میں نشان اور 
کرتے ہیں محبّت تو گزرتا ہے گمان اور 
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیںگے میری بات 
دے اور دل ان کو جو نا دے مجھکو زبان اور 
 ابرو سے ہے کیا اس نگاہے ناز کو پیوند 
ہے تیر مقرر مگر اسکے ہے کمان اور 
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم ؟ جب اٹھیںگے 
لے آہیںگے بازار سے جا کر دل و جان اور     
 ہر چند سبک دست ہووے بٹ شکنی میں 
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا 
ہوتے کیی جو دیدہ خون ابا فشاں اور 
مرت ہوں اس آوازپے ہر چند سر اڑ جائے 
جلاد کو لیکن وہ کہے جا ین ک ہاں اور 


No comments:

Post a Comment