مقید کر دیا
سانپوں کو یہ کہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں
کو انسانون سے ڈسوانے کا موسم ہے
اجالے اپنی
یادوں کے ہمارے پاسس رہنے دو
نجانے کس گلی
میں زندگی کی شام ہو جائے
ہے بس کہ ہر
اک انکے اشارے میں نشان اور
کرتے ہیں
محبّت تو گزرتا ہے گمان اور
یا رب وہ نہ
سمجھے ہیں نہ سمجھیںگے میری بات
دے اور دل ان
کو جو نا دے مجھکو زبان اور
ابرو
سے ہے کیا اس نگاہے ناز کو پیوند
ہے تیر مقرر
مگر اسکے ہے کمان اور
تم شہر میں
ہو تو ہمیں کیا غم ؟ جب اٹھیںگے
لے آہیںگے
بازار سے جا کر دل و جان اور
ہر چند
سبک دست ہووے بٹ شکنی میں
ہم ہیں تو
ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
ہے خون جگر
جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے کیی جو
دیدہ خون ابا فشاں اور
مرت ہوں اس
آوازپے ہر چند سر اڑ جائے
جلاد کو لیکن
وہ کہے جا ین ک ہاں اور
No comments:
Post a Comment